Monday, 3 November 2014

Filled Under:

آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اُٹھ بھی کھڑے ہوئے


.............  غزل ...............

 آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اُٹھ بھی کھڑے ہوئے 

میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا 

ناقص ہے دوستداری میں کامل نہیں ہے تو 

دشمن سے بھی غبار اگردل میں رہ گیا

قاتل سنبھل کے تیغ لگا جائے شرم ہے 

تسمہ لگا جو گردنِ بسمل میں رہ گیا 

آزادی سے زیادہ اسیری میں لطف ہے 

دل مرغ روح کا قفس گُل میں رہ گیا

سبقت جو زندگی میں سکندر سے کی تو کیا 

اے خضر پیچھے مرگ کی منزل میں رہ گیا

مجنوں برہنہ کرتا ہے اُسے اپنی طرف سے

لیلی کا پردہ، پردۃ محمل میں رہ گیا۔۔

پار اُترا جو کہ غرق ہوا بحرِ عشق میں 

وہ داغ ہے جو دامنِ ساحل میں رہ گیا 

کافر ہے مُنکر اسکی کریمی کی شان کا

خالی پیالہ کب کفِ سائل میں رہ گیا 

آتشؔ کو دست و تیغ سے ممکن ہوا نہ زخم 

بیچارہ مر کے حسرتِ قاتل میں رہ گیا


کلام حیدر علی آتش۔

0 comments:

Post a Comment