Friday, 14 November 2014

Filled Under:

تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری

غزل



تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری

لوگ مر جائیں بلا سے تیری

کوئی نسبت کبھی اے جانِ سخن


کسی محرومِ نوا سے تیری

اے میرے ابرِ گریزان کب تک


راہ تکتے رہیں پیاسے تیرے

تیرے مقتل بھی ہمیں سے آباد


ہم بھی زندہ ہیں دعا سے تیری

تو بھی نادم ہے زمانے سے ‘فراز‘


وہ بھی ناخوش ہیں وفا سے تیری


0 comments:

Post a Comment