غزل
جب کبھی خوبئ قسمت سے تجھے دیکھتے ہیں
آئینہ خانے کی حیرت سے تجھے دیکھتے ہیں
وہ جو پامال_زمانہ ہیں مرے تخت نشیں
دیکھ تو کیسی محبت سے تجھے تجھے دیکھتے ہیں
کاسہء دید میں بس ایک جھلک کا سکہ
ہم فقیروں کی قناعت سے تجھے دیکھتے ہیں
تیرے کوچے میں چلے جاتے ہیں قاصد بن کر
اور اکثر اسی صورت سے تجھے دیکھتے ہیں
تیرے جانے کا خیال آتا ہے گھر سے جس دم
در و دیوار کی حسرت سے تجھے دیکھتے ہیں
کہہ گئ باد_صبا آج ترے کان میں کیا
پھول کس درجہ شرارت سے تجھے دیکھتے ہیں
تجھ کو کیا علم تجھے ہارنے والے کچھ لوگ
کس قدر سخت ندامت سے تجھے دیکھتے ہیں
پروین شاکر
0 comments:
Post a Comment