غزل
اپنے پاؤں تلے نہیں، پھر بھی
خوب صورت ہے یہ زمیں پھر بھی
جانے والے نے مُڑ کے دیکھا نہیں
منتظر ہے کوئی، کہیں پھر بھی
وہم ہو، خواب ہو، خیال ہو تم
خیر، ہم نے کِیا یقیں پھر بھی
وقت کچھ اتنا سازگار نہ تھا
بستیاں خواب کی بسیں پھر بھی
دشمنی کا کوئی جواز تو ہو
اس سے اب دوستی نہیں، پھر بھی
رات بھر اک خیال کی لوَ تھی
رات بھر آندھیاں چلیں، پھر بھی
خانۂ دل اُجڑ گیا ۔ ۔ ۔ آخر
بے خبر ہی رہے مکیں پھر بھی
اس سے بچھڑے ہوئے زمانہ ہوا
دل کو آتا نہیں یقیں پھر بھی
ٹوٹ کر سر پہ آن گرتا ہے
آسماں کانچ کا نہیں، پھر بھی
0 comments:
Post a Comment