غزل
میں
آسمانِ تخیل پہ ہی اُڑا کرتا
"خدامجھے بھی اگر بال و پر عطا کرتا"
سمیٹ
لیتا یہ وحشت جنوں یہ بیزاری
میں
تم سے اپنی محبت کی انتہا کرتا
یہ اور بات کہ منزل کی
جستجو میں رہا
وگرنہ دل بھی تیری راہ میں بچھا کرتا
مدارِ شوق میں بھٹکا اگر نہیں ہوتا
تمھارے نقشِ کف ِپا کو راستا کرتا
بساطِ وقت کے دشمن پہ وار
کرنے کو
میں ہر روایتِ دنیا سے بھی دغا کرتا
تمھارا دل جو کبھی دسترس میں آجاتا
میں دےکے درد اُسے درد آشنا کرتا
زمیں کا سینہ چمکتا شعاعِ نوری سے
نمازِ عشق کے سجدوں کو جب ادا کرتا
رضیہ سبحان
0 comments:
Post a Comment