Monday, 3 November 2014

Filled Under:

وہ جو ہمرہی کا غرور تھا وہ سواد راہ میں جل بجھا



وہ جو ہمرہی کا غرور تھا وہ سواد راہ میں جل بجھا

تو ہوا کے عشق میں گھل گیا میں زمیں کی چاہ میں جل بجھا


یہ جو شاخ لب پہ ہجومِ رنگِ صدا کھلا ہے گلی گلی



کہیں کوئی شعلہءِ بے نوا کسی قتل گاہ میں جل بجھا      


جو کتابِ عشق کے باب تھے تری دسترس میں بکھر گئے


وہ جو عہد نامۂ خواب تھا وہ میری نگاہ میں جل بجھا


ہمیں یاد ہو تو بتائیں بھی ذرا دھیان ہو تو سنائیں بھی


کہ وہ دل جو محرمِ راز تھا کہاں رسم و راہ میں جل بجھا


کہیں بےنیازی کی لاگ میں کہیں احتیاط کی آگ میں


تجھے میری کوئی خبر بھی ہے مرے خیر خواہ میں جل بجھا


مری راکھ سے نئی روشنی کی حکایتوں کو سمیٹ لے


میں چراغ صبح وصال تھا تری خیمہ گاہ میں جل بجھا


وہ جو حرف تازہ مثال تھے انھیں جب سے تو نے بھلا دیا


تری بزمِ ناز کا بانکپن کسی خانقاہ میں جل بجھا

سلیم کوثر


0 comments:

Post a Comment