Friday, 14 November 2014

Filled Under:

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا، ہر رستہ سنسان ہوا

غزل

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا،  ہر رستہ سنسان ہوا


اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا

یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا


سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا

صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں


مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا

اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے


جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا

یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کےلوگوں میں


لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا



محسنؔ نقوی

0 comments:

Post a Comment