Thursday, 13 November 2014

Filled Under:

خیال و خواب کی دنیا بسائے رکھتی ہوں

غزل


خیال و خواب کی دنیا بسائے رکھتی ہوں


میں اپنی آنکھوں میں منظر چھپائے رکھتی ہوں


وہ قُربِ دوست میں گزری ہوئی حسیں یادیں


جو سو چکی ہیں اُنہیں کو جگائے رکھتی ہوں


کچھ ناتمام اُمیدیں توکچھ ادھورے خواب


میں اُنکے بوجھ سے خود کو تھکائے رکھتی ہوں


پڑی ہے لذتِ آزار کی جو عادت سی


خوشی میں بارِ غمِ دل اُٹھائے رکھتی ہوں


کسی کی یاد کا روشن سا اک دیا دل میں


شبِ فراق میں اکثر جلائے رکھتی ہوں


خلاء میں یوں تو خلاءکے سِوا کچھ اور نہیں


خلاء میں کس لئے نظریں جمائے رکھتی ہوں


میں جان بوجھ کے دانستہ اور قصدا"بھی


کسی کی یاد کو ہر دم بُھلائے رکھتی ہوں


بدن پہ اطلس و کمخواب و زر سجائے ہوئے


میں عیب رُوح کے اپنے چھپائے رکھتی ہوں




رضیہؔ سبحان

0 comments:

Post a Comment