غزل
طویل کرب و مصائب کا باب کتنا ہے
بتا نصیب میں میرے عذاب کتنا ہے،؟
اندھیری رات میں نکل کے دیکھ کبھی
پتہ چلے گا____ زمانہ خراب کتنا ہے
میں جانتا ہوں حقیقت کسی کو کیا معلوم
فضائے دل میں ميری__ اضطراب کتنا ہے
ہمارے ضعف پہ مت جاؤ__ فکر کو دیکھو
کہ اس میں حسن ہے کتنا ، شباب کتنا ہے
کیا ہے قصد کہ بےباق کر ہی ڈالیں گے
ذرا بتاؤ_______ ہمارا حساب کتنا ہے
زمینِ دل کو مری یہ بھگو نہیں سکتا
پتہ ہے تیرے کرم کا__ سحاب کتنا ہے
ہمیشہ جور و کرم کا____ عمل رہا جاری
کبھی نہ سوچا کہ اس میں ثواب کتنا ہے
ازل سے پڑھتے رہے ہیں کتاب عشق مگر
پتہ نہیں ہے_____ باقی نصاب کتنا ہے
بہت قریب سے پرکھا جو اس کو شیدائی
ہوا ہے علم_______ وہ عزت مآب کتنا ہے
0 comments:
Post a Comment