غزل
یونہی
بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کہیں
ہو نہ جاوٗں میں رائگاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کبھی
سائبان نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی
بے مکاں کبھی لامکاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
ترے
وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جان ِ جاں، مری آدھی عُمر گزر
گئی
کبھی مجھ کو فکر ِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عُمر گزر
گئی
کبھی ذکر ِ حرمت ِ حرف میں، کبھی فکر ِ آمد و صرف
میں
یونہی رزق و عشق کے درمیاں،
مری آدھی عُمر گزر گئی
کوئی طعنہ زن مری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات
پر
پئے دل نوازی ٗ ِ دوستاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ مرے بدگماں، مری آدھی عُمر گزر گئی
اُسے پالیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو
دیا
بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
تری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کُجا؟
ذرا سوچ تو مرے رازداں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر
کروں
اِسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عُمر گزر
گئی
((عرفان ستّار
0 comments:
Post a Comment