Friday, 14 November 2014

Filled Under:

تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا

غزل

تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا


ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا

یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے


تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرا نہیں ملتا

زمانے کو قرینے سے وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے


مگر میرے لیے اس کو کوئی لمحہ نہیں ملتا

مسافت میں دعائے ابر ان کا ساتھ دیتی ہے


جنہیں صحرا کے دامن میں کوئی دریا نہیں ملتا


جہاں ظلمت رگوں میں اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے



اُسی تاریک رستے پر دیا جلتا نہیں ملتا

1 comments: