غزل
ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی
بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی
ایک جاں سوز و نامراد خلش
اِس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی
دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی؟
حُسن سب کو، خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
0 comments:
Post a Comment