Thursday, 13 November 2014

Filled Under:

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، مجھ سے باتیں کیوں نہیں کرتے

غزل

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، مجھ سے باتیں کیوں نہیں کرتے


میں کہتا ہوں، ابھی تو دیکھنے کی منزلوں پر ہوں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، شام کیا ویران ہوتی ہے


میں کہتا ہوں کہ یہ تو ہجر کی پہچان ہوتی ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رتجگوں کا رنگ کیسا ہے


میں کہتا ہوں کہ جیسے جاگنے والے کی آنکھون کا

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، ہجر کی قسمیں بھی ہوتی ہیں


میں کہتا ہوں کہ جتنے وصل اتنے ہجر ہوتے ہیں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، پیار کا مطلب بتاؤ گے


میں کہتا ہوں کہ ہر اک بات کا مطلب نہیں ہوتا

وہ بولی، راستے میں درد کے کتنے سمندر ہیں


میں بولا، آخری جو ضبط سے باہر نکل جائے

وہ بولی، اب تو مجھ میں ضبط کا یارا نہیں باقی


میں بولا، ڈوبنے کو پھر تو تم تیار ہو جاؤ

وہ بولی، کائناتیں اس قدر سمٹی ہوئی کیوں ہیں


میں بولا، اس قدر وسعت کہاں سے آئی ہے تم میں

وہ بولی بے، سروپا زندگی سے کیا ہوا حاصل


میں بولا، کچھ بھی ہو، کچھ بھی نہ ہو، آخر اجل تو ہے

محبت میں سفر کتنا ضروری ہے، وہ کہتی ہے


میں کہتا ہوں، محبت میں کہیں ٹھرا نہیں جاتا

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، آشیانے جل گئے ہوں گے


میں کہتا ہوں کہ شاید اتفاقاً بچ گئے ہوں گے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، آج پھر گولی چلی ہوگی


میں کہتا ہوں ہاں کچھ میتیں آئیں ہیں بستی میں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، آج بھی کچھ بم پھٹے ہوں گے


میں کہتا ہوں، کوئی کہرام تو برپا تھا سڑکوں پر

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، پھر عدالت مر گئی ہوگی


میں کہتا ہوں کہ مجرم تو بزات خود ہی منصف ہیں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادشاہ وقت کیسا ہے


میں کہتا ہوں، بہت ہی مطمئن رہتا ہے بیچارہ



فرحتؔ عباس شاہ

0 comments:

Post a Comment