Thursday, 13 November 2014

Filled Under:

اس قدر عام تو نہیں ہوتے


غزل

اس قدر عام تو نہیں ہوتے

شعر الہام تو نہیں ہوتے

عشق میراث میں نہیں ملتا

خواب نیلام تو نہیں ہوتے

قیس فرہاد ،لیلیٰ و شیریں

یہ فقط نام تو نہیں ہوتے

سب کو شہرت نہیں ملا کرتی

سب پہ الزام تو نہیں ہوتے

ان کو تُوبام و در سمجھتا ہے

یہ در وبام تو نہیں ہوتے

کچھ پرندے ہوا کے قیدی ہیں

سب تہہ ـ دام تو نہیں ہوتے

شہر کھنڈرات میں بدلتے ہیں

دشت گمنام تو نہیں ہوتے

تم پہ ہی کھُل نہیں سکے ورنہ

لوگ ابہام تو نہیں ہوتے

0 comments:

Post a Comment