غزل
اس قدر عام تو نہیں ہوتے
شعر الہام تو
نہیں ہوتے
عشق میراث میں نہیں ملتا
خواب نیلام تو نہیں ہوتے
قیس فرہاد ،لیلیٰ و شیریں
یہ فقط نام تو نہیں ہوتے
سب کو شہرت نہیں ملا کرتی
سب پہ الزام تو نہیں ہوتے
ان کو تُوبام و در سمجھتا ہے
یہ در وبام تو نہیں ہوتے
کچھ پرندے ہوا کے قیدی ہیں
سب تہہ ـ دام تو نہیں ہوتے
شہر کھنڈرات میں بدلتے ہیں
دشت گمنام تو نہیں ہوتے
تم پہ ہی کھُل نہیں سکے ورنہ
لوگ ابہام تو نہیں ہوتے
0 comments:
Post a Comment