غزل
قافلہ
قافلہ دَم نکلتا رہا
الوداع۔۔الوداع۔۔ہاتھ
مَلتا رہا
خشکسالی
کی تپتی ہوئی دھوپ میں
قصئہِ
باد و باراں تو چلتا رہا
حوصلہ
حوصلہ۔۔یہ دعا وہ دعا
موج اُٹھتی رہی خوف پلتا رہا
موت چاروں طرف رقص کرتی رہی
وقت پڑتا رہا وقت ٹلتا رہا
راکھ میں اِک تمنا دہکتی رہی
رنگِ ذوقِ تمنا بدلتا رہا
ساتھ کے وہ دئے سب دھواں ہو گئے
شام تنہائی میں کوئی جلتا رہا
صفدر طاہرؔ
0 comments:
Post a Comment