Sunday, 16 November 2014

Filled Under:

دنیا! میں تجھ سے تنگ ہوں ' میرا مکان چھوڑ


غزل

دنیا! میں تجھ سے تنگ ہوں ' میرا مکان چھوڑ 


چل چھوڑ ' تو ہی ٹھیک سہی' میری جان چھوڑ

کچھ واجبات رزق کے ' کچھ قرض عشق کے 


اے دل ! یہ سب حساب چکا ' اور دکان چھوڑ

ہے یوں کہ یہ جہان ترے بس کا ہے نہیں 


اب اپنا خواب دان اٹھا' خاک دان چھوڑ

اے شاہ ! تو نے آکے مری دھوپ روک لی 


میری زمین چھوڑ ' مرا آسمان چھوڑ

جھوٹ اور سچ کے بیچ کا مسکن کوئی نہیں 


ہر مصلحت سے جان چھڑا ' درمیان چھوڑ

یہ عشق بے امان سہی ' میری جان ہے 


تو جانتا نہیں ہے مرا امتحان ' چھوڑ

ویرانگاں کو یاد رکھیں تازہ بستیاں
 
آئندگاں کے واسطے اک داستان چھوڑ


وہ یاد ِ بے پناہ تعاقب میں آئی ہے 


کتنا کہا تھا تجھ سے ' مت اپنا نشان چھوڑ



سعود عثمانی

0 comments:

Post a Comment