غزل
دنیا! میں تجھ سے تنگ ہوں ' میرا مکان چھوڑ
چل چھوڑ ' تو ہی ٹھیک سہی' میری جان چھوڑ
کچھ واجبات رزق کے ' کچھ قرض عشق کے
اے دل ! یہ سب حساب چکا ' اور دکان چھوڑ
ہے یوں کہ یہ جہان ترے بس کا ہے نہیں
اب اپنا خواب دان اٹھا' خاک دان چھوڑ
اے شاہ ! تو نے آکے مری دھوپ روک لی
میری زمین چھوڑ ' مرا آسمان چھوڑ
جھوٹ اور سچ کے بیچ کا مسکن کوئی نہیں
ہر مصلحت سے جان چھڑا ' درمیان چھوڑ
یہ عشق بے امان سہی ' میری جان ہے
تو جانتا نہیں ہے مرا امتحان ' چھوڑ
ویرانگاں کو یاد رکھیں تازہ بستیاں
آئندگاں کے واسطے اک داستان چھوڑ
وہ یاد ِ بے پناہ تعاقب میں آئی ہے
کتنا کہا تھا تجھ سے ' مت اپنا نشان چھوڑ
سعود عثمانی
0 comments:
Post a Comment