غزل
تیری محفل سے اٹھ کر عشق کے ماروں پہ کیا گزری
مخالف اِک جہاں تھا، جانے بیچاروں پہ کیا گزری
سحر کو رخصتِ بیمارِِ فرقت دیکھنے والوں
کسی نے یہ بھی دیکھا رات بھر تاروں پہ کیا گزری
سنا ھے زندگی ویرانیوں نے لوٹ لی مل کر
نہ جانے زندگی کے ناز برداروں پہ کیا گزری
ہنسی آئی تو ھے بے کیف سی لیکن خدا جانے
مجھے مسرور پا کر میرے غم خواروں پہ کیا گزری
اسیرِ غم تو جاں دے کر رہائی پا گیا لیکن
کسی کو کیا خبر زنداں کی دیواروں پہ کیا گزری
زبردست وااااہ لا جواب بہت عمدہ بہت سی داد وااااااااااہ
ReplyDeleteBhtreen
ReplyDelete