Wednesday, 19 November 2014

جب کبھی خوبئ قسمت سے تجھے دیکھتے ہیں


غزل

جب کبھی خوبئ قسمت سے تجھے دیکھتے ہیں

آئینہ خانے کی حیرت سے تجھے دیکھتے ہیں

وہ جو پامال_زمانہ ہیں مرے تخت نشیں

دیکھ تو کیسی محبت سے تجھے تجھے دیکھتے ہیں

کاسہء دید میں بس ایک جھلک کا سکہ

ہم فقیروں کی قناعت سے تجھے دیکھتے ہیں

تیرے کوچے میں چلے جاتے ہیں قاصد بن کر

اور اکثر اسی صورت سے تجھے دیکھتے ہیں

تیرے جانے کا خیال آتا ہے گھر سے جس دم

در و دیوار کی حسرت سے تجھے دیکھتے ہیں

کہہ گئ باد_صبا آج ترے کان میں کیا

پھول کس درجہ شرارت سے تجھے دیکھتے ہیں

تجھ کو کیا علم تجھے ہارنے والے کچھ لوگ

کس قدر سخت ندامت سے تجھے دیکھتے ہیں


 پروین شاکر

Tuesday, 18 November 2014

درد کی ماری ہوئی دنیا میں کم جانتے ہیں


غزل

درد کی ماری ہوئی دنیا میں کم جانتے ہیں


جتنا نزدیک سے ہم رنج و الم جانتے ہیں


اُس نے پوچھا کہ کسے علم ہے تیرے دل کا


ہم نے آہستہ سے بتلایا۔۔کہ غم جانتے ہیں


آگ میں جُھلسا ہُوا د شت لگے سینہ ہمیں


بھری برسات کو بس دیدہِ نم جانتے ہیں


میرے بارے میں بہت پوچھتے ہو تم لوگو


میرے بارے میں تو کعبے کے صنم جانتے ہیں 


یا خدا میں تِری اس دنیا کے صدقے جاؤں

تیری دُنیا کے سبھی لوگ ستم جانتے ہیں


کتنا مشکل ہے یہاں عِز و شرف سے جینا

 
کوئی کچھ جانے نہ جانے مگر ھم جانتے ھیں




 (فرحت شاہ)

ہاں فرو سوز دل اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا


غزل

ہاں فرو سوز دل اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا


اور گریہ سے بڑھا کم نہ ہوا پر نہ ہوا

سن کر احوال جگر سوز غریب عشق کا


ہائے افسوس تجھے غم نہ ہوا پر نہ ہوا

کشتہ از کے افسوس جنازے پہ ذرا


چشم پر آب تو اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا

چارہ گر کی نہیں تقصیر بہت کی تدبیر


کارگر زخم پہ مرہم نہ ہوا پر نہ ہوا

سن کے نالوں کو مرے ہو گئے پتھر پانی


سر مژگاں کبھی ترا نم نہ ہوا پر نہ ہوا

ہے مثل آ گیا دم ناک میں اپنا لیکن


یار اپنا کبھی ہمدم نہ ہوا پر نہ ہوا

میری جانب سے پڑی سخت گرہ دل میں ترے


سست پیماں ترا محکم نہ ہوا پر نہ ہوا

ہوں وہ آزاد کہ جوں سرو کسی کی خاطر


قد تعظیم مرا خم نہ ہوا پر نہ ہوا

رات ہمسایوں نے اٹھ اٹھ کے دعائیں مانگیں


سوز نالہ مرا مدھم نہ ہوا پر نہ ہوا


جہد کی صنع قدرت نے دلے تیرا سا


کسی مخلوق پہ عالم نہ ہوا پر نہ ہوا

اے ظفر دیکھئے عقبے میں ہو کیا حال اپنا


چین دنیا میں تو اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا




بہادرشاہ ظفرؔ

یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی


غزل

یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی 


اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا 


میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی

لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جیئیں گے ہم جہاں 


ہر جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی

یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر 


ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی

اس سمت وحشی خواہشوں کی زرد میں پیمان وفا 


اس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب 


صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں 


محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی

محسن نقویؔ

اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا


غزل

اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا 

اس کی آواز کا منتظر تھا نگر ، چاند خاموش تھا

کون تھا جس کی آہوں کے غم میں ہوا سرد تھی شہر کی 

کس کی ویران آنکھوں کا لے کے اثر، چاند خاموش تھا

وہ جو سہتا رہا رت جگوں کی سزا چاند کی چاہ میں 

مرگیا تو نوحہ کناں تھے شجر، چاند خاموش تھا

اس سے مل کے میں یوں خامشی اور آواز میں قید تھا 

اک صدا تو مرے ساتھ تھی ہم سفر ، چاند خاموش تھا

کل کہیں پھر خدا کی زمیں پر کوئی سانحہ ہوگیا 

میں نے کل رات جب بھی اٹھائی نظر ، چاند خاموش تھا


فرحت عباس شاہ

اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا


غزل

اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا 


اس کی آواز کا منتظر تھا نگر ، چاند خاموش تھا

کون تھا جس کی آہوں کے غم میں ہوا سرد تھی شہر کی 


کس کی ویران آنکھوں کا لے کے اثر، چاند خاموش تھا

وہ جو سہتا رہا رت جگوں کی سزا چاند کی چاہ میں 


مرگیا تو نوحہ کناں تھے شجر، چاند خاموش تھا

اس سے مل کے میں یوں خامشی اور آواز میں قید تھا 


اک صدا تو مرے ساتھ تھی ہم سفر ، چاند خاموش تھا

کل کہیں پھر خدا کی زمیں پر کوئی سانحہ ہوگیا 


میں نے کل رات جب بھی اٹھائی نظر ، چاند خاموش تھا


فرحت عباس شاہ

آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے


غزل

آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

برف کے پگھلنے میں‌ دیر کتنی لگتی ہے


چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے


قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے


راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

یہ تو وقت کے بس میں ہے کہ کتنی مہلت دے


ورنہ بخت ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

موم کا بدن لے کر دھوپ میں نکل آنا


اور پھر پگھلنے میں‌ دیر کتنی لگتی ہے

سوچ کی زمینوں میں راستے جدا ہوں تو


دور جا نکلنے میں دیر کتنی لگتی ہے


فرحت عباس شاہ

آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے


غزل

آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

برف کے پگھلنے میں‌ دیر کتنی لگتی ہے


چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے


قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے


راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

یہ تو وقت کے بس میں ہے کہ کتنی مہلت دے


ورنہ بخت ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

موم کا بدن لے کر دھوپ میں نکل آنا


اور پھر پگھلنے میں‌ دیر کتنی لگتی ہے

سوچ کی زمینوں میں راستے جدا ہوں تو


دور جا نکلنے میں دیر کتنی لگتی ہے


فرحت عباس شاہ

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آ


غزل

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ جانے کیلئے آ


کچھ تو میرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ،


تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کیلئے آ

پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو،


رسمِ راہِ دنیا ہی نبھانے کیلئے آ

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم،


تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کیلئے آ

اک عمر سے ہوں لذتِ گریہ سے محروم،


اے راحتِ جاں مجھ کو رلانے کیلئے آ

اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں،



یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کیلئے آ

Monday, 17 November 2014

بہار آئی ہے کچھ بے دلی کا چارہ کریں


غزل

بہار آئی ہے کچھ بے دلی کا چارہ کریں

چمن میں آؤ حریفو! کہ استخارہ کریں


شرابِ ناب کے قلزم میں غسل فرمائیں


کہ آبِ مُردۂ تسنیم سے غرارہ کریں

جمودگاہِ یخ و زمہریر میں ہی رہیں؟


کہ سیرِ دائرۂ شعلہ و شرارہ کریں؟

حصارِ صومعہ کے گرد سعی فرمائیں؟


کہ طوفِ کعبۂ رِند و شراب خوارہ کریں؟

مُدبّرانِ خُمستاں کی پیروی فرمائیں؟


کہ اتّباعِ فقیہانِ بدقوارہ کریں؟

عباؤ جُبّہ و کفش و کُلہ کی خیر منائیں؟


کہ رخت و جیب و گریباں کو پارہ پارہ کریں؟

درُونِ دجلۂ مستی شِناوَری فرمائیں؟


کہ ذکرِ زمزم و کوثر ہی پر گزارہ کریں؟

جہاں کو نوشِ خراباتِیاں کی دعوت دیں؟


کہ سُوئے نیشِ مُناجاتیاں اشارہ کریں؟

شمارِ دانۂ تسبیح میں رھیں سرگرم؟


کہ عزمِ خُسرویٔ ذرّہ و ستارہ کریں؟

گلے میں ڈال دیں اے جوشؔ دوڑ کر بانہیں؟


کہ دُور ہی سے رُخ و زلف کا نظارہ کریں؟



جوشؔ ملیح آبادی

ہم بتوں کو جو پیار کرتے ہیں

غزل

ہم بتوں کو جو پیار کرتے ہیں

نقلِ پروردگار کرتے ہیں


کیا محبت بھی کوئی پیشہ ہے


لوگ کیوں اتنے پیار کرتے ہیں


اتنی قسمیں نہ کھاو گھبرا کر


جاو ہم اعتبار کرتے ہیں


اب بھی آجاو کچھ نہیں بگڑا


اب بھی ہم انتظار کرتے ہیں


دشمنی غیر تو نہیں کرتے


یہ شرافت تو یار کرتے ہیں

تو خفا ہو یا خوش ہم تو


واقعی تجھ سے پیار کرتے ہیں


خوبیوں کو بھی قدردان عدم


خامیوں میں شمار کرتے ہیں



عدمؔ


تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا


غزل

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا


وہ قتل کر کے ہر کسی سے پوچھتے ہیں


یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا

وفا کرینگے ،نباہینگے، بات مانینگے


تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

رہا نہ دل میں وہ بیدرد اور درد رہا


مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا

نہ پوچھ تاچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤبھگت


تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا

انھیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور


جو لطف آپ ہی کرتے تو نام کس کا تھا

تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق


کہو، وہ تذکرا نا تمام کس کا تھا

گزر گیا وہ زمانہ کہیں تو کس سے کہیں


خیال میرے دل کو صبح وشام کس کا تھا

اگرچہ دیکھنے والے تیرے ہزاروں تھے


تباہ حال بہت زیرے بام کس کا تھا

ہر اک سے کہتے ہیں کیا ‘داغ’ بےوفا نکلا


یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا



داغؔ