غزل
پتھر
تھا، مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
ایک شخص اندھیروں میں اُجالوں کی طرح تھا
خوابوں کی طرح تھا، نہ
خیالوں کی طرح تھا
وہ علمِ ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا
اُلجھا ہو ایسا، کہ کبھی
کُھل نہیں پایا
سُلجھا ہوا ایسا کہ مِثالوں کی طرح تھا
وہ مِل تو گیا لیکن، اپنا
بھی مُقدر
شطرنج کی اُلجھی ہوئ چالوں کی طرح تھا
وہ رُوح میں خُوشبُو کی طرح
ہوگیا تحلیل
جو دُور
بہت چاند کے ہالوں کی طرح تھا
0 comments:
Post a Comment